سپریم کورٹ کی سخت سرزنش: پریاگ راج میں غیر قانونی انہدام پر یوگی حکومت کو پھٹکار

سپریم کورٹ نے پریاگ راج میں قانونی تقاضے پورے کیے بغیر لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے معاملے کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ عدالت نے بدھ کے روز سماعت کے دوران اتر پردیش حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ جسٹس ابھے اوکا اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ کی سربراہی میں بینچ نے اس کارروائی کو غیر منصفانہ اور ظالمانہ قرار دیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ حکومت کو متاثرہ افراد کے مکانات دوبارہ تعمیر کرنے ہوں گے۔

عدالت کا سخت مؤقف
سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ “یہ اقدام چونکا دینے والا ہے اور ایک غلط مثال قائم کرتا ہے، اسے فوری طور پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔” عدالت نے سوال اٹھایا کہ بغیر مناسب قانونی کارروائی کے مکانات گرانے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟

یہ معاملہ ذوالفقار حیدر، پروفیسر علی احمد، دو بیواؤں اور ایک اور متاثرہ فرد کی درخواست پر زیر سماعت تھا، جنہوں نے الزام لگایا کہ ان کے مکانات غیر قانونی طور پر منہدم کیے گئے۔ حکومت نے اپنے دفاع میں دعویٰ کیا کہ یہ زمین گینگسٹر سیاستدان عتیق احمد کی ملکیت تھی، جو 2023 میں پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے۔

حکومت کا مؤقف اور سپریم کورٹ کا ردعمل
الہ آباد ہائی کورٹ نے پہلے درخواست مسترد کر دی تھی، جس کے بعد متاثرین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا کہ انہیں ہفتہ کی رات نوٹس دیا گیا اور اتوار کو انہدامی کارروائی عمل میں لائی گئی، جو ناانصافی ہے۔

حکومت کے وکیل، اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی نے کہا کہ مناسب نوٹس دیا گیا تھا، لیکن جسٹس اوکا نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نوٹس کیوں چسپاں کیا گیا؟ اسے کورئیر یا دیگر سرکاری ذرائع سے کیوں نہیں بھیجا گیا؟ سپریم کورٹ نے اس اقدام کو ایک غلط نظیر قرار دیا۔

ہائی کورٹ بھیجنے کی درخواست مسترد
حکومت نے کیس کو دوبارہ ہائی کورٹ بھیجنے کی درخواست کی، لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ مسئلہ اب وہیں حل کیا جائے گا۔

گھروں کی دوبارہ تعمیر کا حکم
عدالت نے حکم دیا کہ مسمار کیے گئے مکانات کو دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ حکومت کو یا تو خود مکانات تعمیر کرنے ہوں گے یا متاثرین کو اجازت دینی ہوگی کہ وہ اپنی تعمیر نو کریں، اس کے بعد قانونی تقاضے مکمل کیے جا سکتے ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر حکومت چاہے تو حلف نامہ داخل کر سکتی ہے، ورنہ متاثرہ افراد کو دوبارہ بسایا جائے۔

یہ فیصلہ متاثرین کے لیے ایک بڑی راحت ہے اور مستقبل میں اس طرح کی کارروائیوں کے لیے ایک اہم قانونی نظیر قائم کرے گا۔