شام میں تشدد کی نئی لہر، پانچ سو سے زائد ہلاک

شام کے ساحلی علاقے اللاذقیہ میں عبوری حکومت اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد 500 سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ تصادم آج آٹھ مارچ بروز ہفتہ جاری رہا، جس کے دوران بڑے پیمانے پر جانی نقصان کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم “سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس” کے مطابق، ان جھڑپوں میں کم از کم 120 باغی اور 93 سرکاری فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مزید برآں، تنظیم کے مطابق عبوری حکومت کی جوابی کارروائیوں میں کم از کم 340 شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

SOHR نے شہریوں کی ہلاکتوں کو “قتل عام” قرار دیا ہے۔ تنظیم کے ترجمان نے الزام لگایا کہ علوی برادری کے افراد، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ ان کے گھروں اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ علوی نوجوانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ سابقہ حکومت کی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے مختلف نہیں تھا۔

یہ تشدد ملک کے علوی اکثریتی ساحلی قصبے جبلہ سے شروع ہوا اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں تک پھیل گیا۔ یہ علاقہ سابق صدر بشار الاسد کے علوی قبیلے کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ شام کی جنرل انٹیلی جنس سروس کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ان واقعات کی منصوبہ بندی میں معزول حکومت کے بعض فوجی اور سیکیورٹی عہدیدار ملوث تھے۔