نئی دہلی، 6 مارچ: پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں نوح تشدد معاملے کے ملزم توفیق کو مستقل ضمانت دے دی۔ وہ تھانہ نگینہ، ضلع نوح میں درج ایف آئی آر نمبر 137 کے تحت مختلف دفعات بشمول 148، 149، 379-بی، 435، 427، اور 153-اے کے تحت مقدمے کا سامنا کر رہا تھا۔
توفیق 11 اگست 2023 سے جیل میں تھا۔ ریاستی حکومت نے اس کی ضمانت کی سخت مخالفت کرتے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیج اور برآمد شدہ مواد کو بطور ثبوت پیش کیا، تاہم جسٹس تری بھون دہیا نے نوٹ کیا کہ ابتدائی ایف آئی آر میں توفیق کا نام شامل نہیں تھا بلکہ اسے محض ساتھی ملزم کے بیان پر گرفتار کیا گیا۔ مزید یہ کہ اسی نوعیت کے الزامات کا سامنا کرنے والے دیگر ملزمان کو پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی۔
جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ایڈوکیٹ روزی خان نے عدالت میں توفیق کا دفاع کیا اور پولیس کے پیش کردہ ویڈیو شواہد کو قانونی نکات کے ذریعے مسترد کر دیا۔ تفصیلی سماعت کے بعد عدالت نے توفیق کی ضمانت منظور کر لی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر ہائی کورٹ میں ایسے کئی مقدمات کی پیروی کی جا رہی ہے۔ توفیق کو نوح تشدد سے متعلق 10 مقدمات میں نامزد کیا گیا تھا، جن میں سے چار میں اسے ضلع اور سیشن کورٹ، نوح سے ضمانت مل چکی تھی، جبکہ دیگر معاملات میں ضلعی عدالت سے ضمانت مسترد ہونے پر ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور ابھی تک چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی، جبکہ توفیق ایک سال چار ماہ سے جیل میں ہے۔ اس دوران دو مرتبہ عبوری ضمانت کے باوجود اس کے خلاف کوئی خلاف ورزی درج نہیں کی گئی، جس کی بنیاد پر عدالت نے اسے مزید قید میں رکھنے کو غیر ضروری قرار دیا۔
جمعیۃ علماء ہند کی قانونی ٹیم نے نوح تشدد کے ناحق قیدیوں کی 645 ضمانتیں منظور کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جن کی پیروی ایڈوکیٹ طاہر روپڑیا کر رہے ہیں۔ اس وقت جمعیۃ علماء ہند 663 مقدمات کی پیروی کر رہی ہے، جن میں سے 9 افراد بشمول 7 نابالغ ملزمان کو باعزت بری کرایا جا چکا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، انچارج قانونی امور مولانا نیاز احمد فاروقی اور ریاستی جنرل سیکریٹری مولانا یحییٰ کریمی نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ بے گناہ افراد کو جلد انصاف ملے گا۔ اہل خانہ نے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی اور ان کی قانونی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔