برلن، 24 فروری:جرمنی کے اہم سیاسی رہنما فریڈرش مرز ملک کے اگلے چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ ان کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ مرز کی قیادت میں اس اتحاد نے آٹھائیس اعشاریہ پانچ فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ چانسلر اولاف شولز کی سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
الیکشن میں بڑی کامیابی
جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق، انتخابات میں مرز کے اتحاد کے بعد دوسری سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت ایک انتہائی سخت نظریات رکھنے والی جماعت رہی، جس نے بیس اعشاریہ سات فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اتوار کی شام، اپنی جماعت کی بڑی جیت کے بعد، مرز نے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “جرمنی ایک بار پھر مستحکم حکومت کے تحت آئے گا۔”
فریڈرش مرز کون ہیں؟
فریڈرش مرز گیارہ نومبر انیس سو پچپن کو جرمنی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو قانونی شعبے میں مہارت رکھتا ہے۔ انیس سو چھہتر میں انہوں نے قانون کی تعلیم کا آغاز کیا اور انیس سو بہتر میں ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ انیس سو اکیاسی میں انہوں نے ایک وکیل سے شادی کی، جو بعد میں جج بنیں۔ ان کے تین بچے ہیں۔
سیاسی سفر
مرز نے انیس سو نواسی میں یورپی پارلیمنٹ میں قدم رکھا اور انیس سو چورانوے میں وہ جرمنی کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ دو ہزار میں وہ اپنی جماعت کے پارلیمانی رہنما بنے، مگر دو ہزار دو میں انجیلا مرکل کے حق میں عہدہ چھوڑ دیا۔ دو ہزار پانچ میں اتحادی حکومت بننے کے بعد انہیں نظر انداز کر دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے دو ہزار نو میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور قانونی و مالیاتی امور میں کامیاب کیریئر بنایا۔
سیاست میں واپسی
تقریباً دس سال بعد، مرز نے سیاست میں واپسی کا فیصلہ کیا، جب انجیلا مرکل نے دو ہزار اٹھارہ میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ وہ پارٹی قیادت کے لیے میدان میں اترے، مگر معمولی فرق سے شکست کھا گئے۔ دو ہزار بیس میں ایک بار پھر موقع آیا، مگر پارٹی نے کسی اور رہنما کو ترجیح دی۔
دو ہزار اکیس میں تیسری کوشش کے بعد مرز دوبارہ جرمن پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے، لیکن پارٹی کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دو ہزار بائیس میں وہ پارٹی کے سربراہ بنے اور اب ملک کے نئے چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔
چیلنجز اور پالیسیز
مرز نے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت موقف اپنانے اور معیشت کو بہتر بنانے کے وعدے کیے ہیں۔ تاہم، ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایک مضبوط اتحادی حکومت کی تشکیل ہوگا، تاکہ وہ جرمنی میں استحکام اور ترقی کی نئی راہ متعین کر سکیں۔