تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے پانچ مارچ کو ایک آل پارٹی میٹنگ بلائی ہے، کیونکہ 2026 میں ہونے والی حد بندی جنوبی ریاستوں کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ حد بندی ایک ایسا عمل ہے جس میں لوک سبھا اور اسمبلی حلقوں کی سرحدیں آبادی میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق دوبارہ ترتیب دی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہر حلقے میں تقریباً مساوی آبادی ہو، تاکہ ہر شہری کو یکساں نمائندگی حاصل ہو۔
ہندوستانی آئین میں حد بندی کے متعلق کیا کہا گیا ہے؟
ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 82 اور 170 میں حد بندی سے متعلق واضح ہدایات موجود ہیں:
آرٹیکل 82 کے مطابق، ہر قومی مردم شماری کے بعد پارلیمنٹ کو ایک حد بندی ایکٹ منظور کرنا ہوتا ہے، تاکہ لوک سبھا کے حلقوں کی تعداد اور سرحدیں دوبارہ متعین کی جا سکیں۔
آرٹیکل 170 ریاستی اسمبلیوں کی حد بندی سے متعلق ہے، جو ہر ریاست میں آبادی کے مطابق اسمبلی نشستوں کی تعداد طے کرتا ہے۔
ہندوستان میں کتنی بار حد بندی ہو چکی ہے؟
ہندوستان میں چار بار حد بندی کی گئی ہے: 1952، 1963، 1973، اور 2002 میں۔ 1976 میں ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ جن ریاستوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے تحت آبادی کو کنٹرول کیا ہے، ان کے پارلیمانی یا اسمبلی حلقوں میں کمی نہیں کی جائے گی۔ یہ فیصلہ 42ویں آئینی ترمیم کے ذریعے باضابطہ طور پر نافذ کیا گیا اور 2001 کی مردم شماری تک نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
2001 میں حلقوں کی حد بندی تو کی گئی، لیکن نشستوں کی کل تعداد برقرار رہی، کیونکہ جنوبی ریاستوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اب 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد مرکزی حکومت نے قومی مردم شماری اور حد بندی کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
حد بندی کے اثرات کیا ہوں گے؟
حد بندی کے نتیجے میں شمالی ہندوستان کی ریاستوں کو زیادہ نشستیں مل سکتی ہیں، جبکہ جنوبی ریاستوں میں معمولی اضافہ ہوگا۔ اندازہ ہے کہ تمل ناڈو کی نشستیں 39 سے 41 ہو سکتی ہیں، جبکہ کرناٹک، تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بھی معمولی اضافہ ہوگا۔ تاہم، کیرالہ کی نشستیں 20 سے کم ہو کر 19 ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف، شمالی ریاستیں جیسے اتر پردیش اور بہار میں نشستوں کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ سکتی ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حد بندی کے عمل میں جنوبی ریاستوں کی نشستوں میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور انہیں منصفانہ نمائندگی ملے گی۔