یوکرین پر روس کے حملے کو تین سال مکمل ہو چکے ہیں، اور اس دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے باعث سرد رویہ اختیار کیا۔ تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے روس کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وہ ماسکو کو جارح تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں اور یوکرین کو مکمل طور پر مظلوم قرار دینے سے بھی انکار کر رہے ہیں۔
یہ معاملہ اس وقت نمایاں ہوا جب ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ملاقات میں کشیدگی دیکھنے میں آئی اور یوکرین جنگ کے حل پر کھل کر بحث ہوئی۔ ماہرین کے مطابق یہ صورتحال 1990 کی دہائی میں ابھرنے والے مغربی عالمی نظام کے زوال کی علامت ہو سکتی ہے۔
یہ نظام بین الاقوامی معاہدوں اور جمہوری اصولوں پر مبنی تھا، جس میں اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے اہم کردار ادا کرتے تھے۔ روس پر الزام ہے کہ اس نے یوکرین پر حملہ کرکے نہ صرف عالمی قوانین بلکہ مغربی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی چیلنج کیا۔
روس کا مؤقف ہے کہ مغربی طاقتوں نے بھی یوگوسلاویہ، عراق اور کوسوو میں اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر کارروائیاں کیں، جسے دوہرا معیار کہا جا سکتا ہے۔
آخرکار، اس عالمی نظام کی بقا کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ یوکرین جنگ کیسے اختتام پذیر ہوتی ہے اور اس کے بعد امن کیسے قائم کیا جاتا ہے۔