“اگر آپ پر بم گِر جائے تو کیا ہوگا؟” ٹرمپ کا روسی جنگ بندی کے سوال پر سخت ردعمل

وینس نے کہا کہ امریکہ نے ایک ایسا صدر دیکھا ہے جو ولادیمیر پوتن کے خلاف سخت بیانات دیتا رہا، لیکن پھر بھی روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا اور ملک کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جو بائیڈن کا سخت رویہ کارگر ثابت نہیں ہوا، اور اصل راستہ سفارت کاری ہے، جو صدر ٹرمپ اپنا رہے ہیں۔

زیلینسکی نے اس پر سوال اٹھایا کہ 2014 سے لے کر اب تک روس یوکرین کے علاقوں پر قابض ہے، اور کئی سربراہان مملکت کے باوجود اسے روکا نہیں گیا۔ انہوں نے 2019 میں روس کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کا حوالہ دیا، جو بعد میں روس نے توڑ دیا تھا۔ زیلینسکی نے پوچھا کہ “ایسی سفارت کاری کا کیا فائدہ جو معاہدوں کے باوجود روس کو جنگ جاری رکھنے دے؟”

وینس نے جواب دیا کہ امریکہ کی موجودہ حکمت عملی یوکرین کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے ہے، اور زیلینسکی کا وائٹ ہاؤس میں امریکی پالیسی پر تنقید کرنا غیر مناسب ہے۔

ٹرمپ کا شدید ردعمل
بحث کے دوران زیلینسکی نے کہا کہ امریکہ کو اس جنگ کے اثرات مستقبل میں محسوس ہوں گے۔ اس پر ٹرمپ سخت برہم ہو گئے اور کہا، “آپ ہمیں مت بتائیں کہ ہم کیا محسوس کریں گے۔ ہم مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

ٹرمپ نے کہا کہ زیلینسکی کی حکومت اس وقت ایک کمزور پوزیشن میں ہے اور امریکہ کی مدد کے بغیر یوکرین کے پاس کوئی طاقت نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کے بغیر جنگ شاید چند دنوں میں ہی ختم ہو جاتی، اور یوکرین کو فوری طور پر جنگ بندی کر لینی چاہیے۔

جنگ بندی پر تنازعہ
ٹرمپ نے زیلینسکی پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی پر راضی ہوں، تاکہ خونریزی روکی جا سکے۔ زیلینسکی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ “ہم جنگ بندی چاہتے ہیں، لیکن ضمانتوں کے ساتھ۔”

وینس نے کہا کہ زیلینسکی کو امریکی مدد پر شکایت کرنے کے بجائے شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ زیلینسکی نے جواب دیا کہ وہ متعدد بار امریکہ کا شکریہ ادا کر چکے ہیں، لیکن ان کا مقصد یہ ہے کہ جنگ بندی کسی ٹھوس معاہدے کے تحت ہونی چاہیے، نہ کہ صرف ایک وقتی رکاوٹ کے طور پر۔

ٹرمپ کا روس اور پوتن پر موقف
ٹرمپ نے کہا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کبھی ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو نہیں توڑا، کیونکہ وہ انہیں ایک مضبوط لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “پوتن نے اوباما، بش اور بائیڈن کے ساتھ معاہدے توڑے، لیکن میرے ساتھ نہیں۔ وہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ زیلینسکی تیار ہیں یا نہیں؟”

ٹرمپ نے زیلینسکی پر زور دیا کہ وہ امریکہ کے تعاون پر زیادہ شکر گزار ہوں اور جنگ بندی کے لیے فوری اقدامات کریں، ورنہ یوکرین کو اکیلے ہی لڑنا ہوگا۔

نتیجہ
یہ بحث نہ صرف یوکرین کی جنگ بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اور ٹرمپ کی قیادت کے انداز کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ یہ واضح ہو گیا کہ ٹرمپ یوکرین کو جنگ جاری رکھنے کے بجائے روس کے ساتھ جلد از جلد کسی معاہدے پر راضی دیکھنا چاہتے ہیں۔