جموں و کشمیر اسمبلی کا بجٹ اجلاس 3 مارچ سے شروع ہونے والا ہے، اور اس سے قبل مرکز کے زیر انتظام علاقے میں شراب پر مکمل پابندی کے مطالبے میں شدت آ گئی ہے۔ اس حوالے سے اسمبلی میں تین پرائیوٹ بل متعارف کرانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ایم ایل اے فیاض احمد نے سب سے پہلے بل پیش کیا، جس میں الکحل کے مشروبات کی فروخت، خریداری اور اشتہارات پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے ایم ایل اے احسن پردیسی اور آزاد ایم ایل اے شیخ خورشید احمد نے بھی اسی نوعیت کے بل جمع کرائے ہیں۔
یہ مطالبہ وادی میں منشیات کے بڑھتے ہوئے مسئلے کے پیش نظر سامنے آیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، سری نگر میں ہر 12 منٹ کے اندر ایک منشیات کا عادی فرد طبی امداد کے لیے رجوع کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر نشے میں دھت سیاحوں کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد عوامی غم و غصہ مزید بڑھ گیا ہے۔
پی ڈی پی لیڈر التجا مفتی نے کہا کہ اگر گجرات میں شراب پر پابندی لگ سکتی ہے تو جموں و کشمیر جیسے مسلم اکثریتی علاقے میں بھی یہ ممکن ہے۔ تاہم، نیشنل کانفرنس حکومت محتاط رویہ اپنا رہی ہے، کیونکہ 2020 میں شراب کی فروخت سے حاصل ہونے والا ریونیو 1,353 کروڑ روپے تھا، جو 2024 میں بڑھ کر 2,486 کروڑ روپے ہو چکا ہے۔
میر واعظ عمر فاروق نے نیشنل کانفرنس کے ترجمان کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے سخت ناراضگی کا اظہار کیا، جس کے بعد ترجمان نے اپنے الفاظ واپس لے لیے اور کہا کہ وہ بھی شراب پر پابندی کے حامی ہیں۔ اس معاملے پر سیاسی و سماجی حلقوں میں گرما گرم بحث جاری ہے۔