راجستھان ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ: مسجد وقف املاک میں شامل، تنازعات کا فیصلہ صرف وقف ٹریبونل کرے گا

نئی دہلی: وقف (ترمیمی) بل 2024 پر جاری تنازعے کے درمیان، جسے جے پی سی کی رپورٹ کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے، راجستھان ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ مسجد وقف کی تعریف میں آتی ہے اور اس سے متعلق تنازعات کا فیصلہ صرف وقف ٹریبونل ہی کر سکتا ہے۔

اپنے تاریخی فیصلے میں، ہائی کورٹ نے “وقف بائی یوزر” کے اصول کو تسلیم کیا ہے، جسے نئے ترمیمی بل میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر کسی غیر منقولہ جائیداد پر مسجد تعمیر کی گئی ہو اور وہ اسلامی احکام کے مطابق مذہبی مقصد کے لیے وقف ہو، تو یہ وقف ایکٹ 1995 کے سیکشن 3 کے تحت وقف املاک تصور کی جائے گی۔

عدالتی فیصلہ اور پس منظر
راجستھان کے پھلودی ضلع کی ایک ماتحت عدالت نے پہلے فیصلہ دیا تھا کہ چونکہ مذکورہ جائیداد وقف رجسٹر میں درج نہیں، اس لیے عام عدالت کو اس معاملے پر سماعت کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم، راجستھان ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ مسجد ایک مذہبی مقام ہے، اس لیے اس سے متعلق قانونی چارہ جوئی کا اختیار صرف وقف ٹریبونل کے پاس ہے۔

ہائی کورٹ کی جودھ پور پرنسپل سیٹ پر جسٹس بیرندر کمار کی سنگل جج بنچ نے 20 فروری کو پھلودی ضلع کے کالرا گاؤں میں واقع مدینہ جامع مسجد سے متعلق ایک تنازعہ پر سماعت کرتے ہوئے چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔

یہ مسجد گاؤں کی مسلم برادری کے مالی تعاون سے تعمیر کی گئی تھی، اور عدالت نے تسلیم کیا کہ اس کی مذہبی حیثیت برقرار رہنی چاہیے۔