نرملا سیتارامن کے مرکزی بجٹ 2025 پر ٹیکس دہندگان کے لیے 10 اہم نکات

مرکزی بجٹ دو ہزار پچیس – چھبیس: ٹیکس دہندگان کے لیے دس اہم تبدیلیاں
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے یکم فروری دو ہزار پچیس کو مالی سال دو ہزار پچیس – چھبیس کے لیے بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئیں، جن کا مقصد عام لوگوں کو زیادہ سہولت فراہم کرنا ہے۔ سب سے بڑی خوشخبری یہ تھی کہ اب سالانہ بارہ لاکھ روپے تک کمانے والوں کو کسی قسم کا آمدنی ٹیکس نہیں دینا ہوگا۔ آئیے دیگر بڑی تبدیلیوں پر نظر ڈالتے ہیں:
ایک۔ نئے آمدنی ٹیکس کے زمرے
حکومت نے نئے ٹیکس نظام کو مزید آسان بنایا ہے، تاکہ متوسط طبقے کو زیادہ فائدہ پہنچے۔ نئے زمرے کچھ یوں ہیں:
• چار لاکھ روپے تک – کوئی ٹیکس نہیں
• چار سے آٹھ لاکھ روپے تک – پانچ فیصد ٹیکس
• آٹھ سے بارہ لاکھ روپے تک – دس فیصد ٹیکس
• بارہ سے سولہ لاکھ روپے تک – پندرہ فیصد ٹیکس
• سولہ سے بیس لاکھ روپے تک – بیس فیصد ٹیکس
• بیس سے چوبیس لاکھ روپے تک – پچیس فیصد ٹیکس
• چوبیس لاکھ روپے سے زیادہ – تیس فیصد ٹیکس
دو۔ ٹیکس چھوٹ کی حد میں اضافہ
پہلے پچیس ہزار روپے تک کی ٹیکس چھوٹ ملتی تھی، مگر اب ساٹھ ہزار روپے تک بڑھا دی گئی ہے۔ یہ فائدہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو نئے ٹیکس نظام کا انتخاب کریں گے، جبکہ غیر مقیم بھارتیوں کے لیے یہ سہولت نہیں ہے۔
تین۔ دو گھروں کو خود استعمال شدہ قرار دینے کی اجازت
اب ٹیکس دہندگان دو گھروں کو “خود زیرِ استعمال” قرار دے سکتے ہیں، چاہے وہ ان میں نہ بھی رہتے ہوں۔ اس سے ان افراد کو فائدہ ہوگا جن کے پاس ایک سے زیادہ گھر ہیں اور وہ پہلے اضافی ٹیکس دیتے تھے۔
چار۔ بیرونِ ملک بھیجی جانے والی رقم پر ٹیکس کی حد میں اضافہ
اگر کوئی شخص بیرونِ ملک پیسے بھیجتا ہے تو پہلے سات لاکھ روپے سے زیادہ پر ٹیکس لاگو ہوتا تھا۔ اب یہ حد دس لاکھ روپے کر دی گئی ہے، تاکہ عام لوگوں کو زیادہ فائدہ ملے۔
پانچ۔ تعلیم کے لیے بھیجے گئے پیسوں پر ٹیکس ختم
اگر کسی طالبعلم کے تعلیمی اخراجات کے لیے بیرونِ ملک رقم بھیجی جا رہی ہے اور وہ رقم کسی تسلیم شدہ بینک یا مالیاتی ادارے سے لیے گئے قرض سے آ رہی ہے، تو اس پر اب کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ پہلے اس پر صفر اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس لگایا جاتا تھا اگر رقم سات لاکھ روپے سے زیادہ ہوتی۔
چھ۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا وقت بڑھا دیا گیا
اب اگر کوئی شخص غلطی سے کم ٹیکس جمع کرائے یا کچھ تفصیلات رہ جائیں تو وہ اڑتالیس مہینے یعنی چار سال تک اپنی فائل درست کر سکتا ہے۔ پہلے یہ حد صرف چوبیس مہینے یعنی دو سال تھی۔ لیکن، جتنی دیر ہوگی، اضافی ٹیکس اور سود بھی دینا ہوگا، جو بعض معاملات میں ستر فیصد تک جا سکتا ہے۔
سات۔ قومی پنشن اسکیم پر ٹیکس کٹوتی میں اضافہ
اگر کوئی شخص پرانے ٹیکس نظام کے تحت قومی پنشن اسکیم میں سرمایہ کاری کرتا ہے، تو اسے پچاس ہزار روپے تک کی کٹوتی ملتی تھی۔ اب یہ کٹوتی قومی پنشن اسکیم وتسالیہ منصوبے کے تحت بچوں یعنی نابالغ افراد کے لیے کی گئی سرمایہ کاری پر بھی ملے گی۔
آٹھ۔ بزرگ شہریوں کے لیے بینک کے سود پر ٹیکس کٹوتی کی حد میں اضافہ
بزرگ شہریوں کے لیے بینک کے سود پر ٹیکس کٹوتی کی حد پچاس ہزار روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔ عام افراد کے لیے بھی یہ حد چالیس ہزار روپے سے بڑھا کر پچاس ہزار روپے کر دی گئی ہے، تاکہ زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔
نو۔ بڑے کرایہ داروں کے لیے ٹیکس کٹوتی کی حد میں اضافہ
اگر کوئی کارپوریٹ کمپنی یا ادارہ کسی کو کرایہ ادا کرتا ہے تو پہلے دو لاکھ چالیس ہزار روپے سالانہ سے زیادہ کرایہ پر ٹیکس کٹوتی کی جاتی تھی۔ اب یہ حد پچاس ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی ہے۔ یعنی اگر کسی مہینے میں پچاس ہزار روپے یا اس سے زیادہ کرایہ دیا جائے گا تو ہی ٹیکس کٹوتی کی جائے گی۔
دس۔ منافع اور مشترکہ سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کٹوتی کی حد بڑھا دی گئی
پہلے اگر کسی کو منافع یا مشترکہ سرمایہ کاری سے پانچ ہزار روپے سے زیادہ آمدنی ہوتی تو اس پر ٹیکس کٹوتی کی جاتی تھی۔ اب یہ حد دس ہزار روپے کر دی گئی ہے، تاکہ چھوٹے سرمایہ کاروں پر بوجھ کم ہو۔

خلاصہ
یہ بجٹ متوسط طبقے، تنخواہ دار طبقے، سرمایہ کاروں اور بزرگ شہریوں کے لیے کئی مثبت تبدیلیاں لایا ہے۔ آمدنی ٹیکس کے زمرے میں نرمی، ٹیکس چھوٹ میں اضافہ اور ٹیکس کٹوتی کی حد بڑھانے سے عام آدمی کو بڑی راحت ملے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *