اٹلی کی وزیرِاعظم جارجیا میلونی نے ترقی پسند سیاستدانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ دائیں بازو کے رہنماؤں کے بڑھتے اثر و رسوخ سے ترقی پسند “مایوسی” کا شکار ہو رہے ہیں، خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد۔
واشنگٹن میں منعقدہ قدامت پسند سیاسی اجلاس میں ویڈیو پیغام کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے، میلونی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کی حمایت کی اور ترقی پسند رہنماؤں پر “دوہرے معیار” کا الزام لگایا۔
انہوں نے کہا، “جب بِل کلنٹن اور ٹونی بلیئر نے 90 کی دہائی میں عالمی ترقی پسند اتحاد بنایا تو انہیں مدبر کہا گیا، لیکن جب ٹرمپ، میں، (ہاوئیر) ملیئی یا (نریندر) مودی بات کرتے ہیں تو ہمیں جمہوریت کے لیے خطرہ کہا جاتا ہے۔”
میلونی نے مزید کہا کہ “بائیں بازو کے سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں، لیکن عوام ان پر یقین نہیں کرتے۔ چاہے وہ جتنا بھی کیچڑ اچھالیں، عوام ہمیں ہی منتخب کرتے ہیں۔”
ٹرمپ کی حمایت اور یورپ سے تعلقات پر گفتگو
جارجیا میلونی نے صدر ٹرمپ کو ایک مضبوط رہنما قرار دیا اور کہا کہ “بائیں بازو کے سیاستدان گھبراہٹ کا شکار ہیں، اور ٹرمپ کی جیت کے بعد ان کی مایوسی غصے میں بدل گئی ہے۔”
میلونی نے کہا کہ “امریکہ اور یورپ کے تعلقات مضبوط رہیں گے، چاہے ٹرمپ دوبارہ صدر بنیں۔” تاہم، یورپی ممالک میں ٹرمپ کی روس کے ساتھ سفارتی پالیسیوں اور عسکری اتحاد سے متعلق بیانات پر خدشات پائے جاتے ہیں۔
شرکت پر تنازعہ
جارجیا میلونی کی اجلاس میں شرکت پر اٹلی میں سیاسی مخالفین نے سخت اعتراض کیا۔ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیو بینن نے اجلاس کے دوران متنازعہ اشارہ کیا۔
اٹلی کی عوامی جماعت کی رہنما ایلی شلین نے میلونی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، “انہیں اس انتہا پسند اجتماع سے خود کو الگ کر لینا چاہیے تھا۔”
فرانس کی قومی جماعت کے سربراہ جورڈن بارڈیلا نے بھی شرکت منسوخ کر دی اور کہا کہ “بینن کا اشارہ انتہا پسند نظریے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔”
نتیجہ
جارجیا میلونی کی تقریر نے عالمی سیاست میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک طرف، وہ قدامت پسند رہنماؤں کے اتحاد کو ایک بڑی کامیابی قرار دے رہی ہیں، جبکہ دوسری طرف ترقی پسند سیاستدانوں نے ان پر شدید تنقید کی ہے۔