غزہ کی تعمیر نو کے لیے 53.2 ارب ڈالر درکار
اقوام متحدہ، یورپی یونین اور ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی 15 ماہ کی جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو کے لیے 50 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہوگی۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگلی دس سالوں میں غزہ کی مکمل بحالی اور تعمیر نو کے لیے 53.2 ارب ڈالر درکار ہوں گے، جن میں پہلے تین سالوں میں تقریباً 20 ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہوگی۔
جیسے جیسے عرب ممالک غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کی ممکنہ جبری نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے ایک مؤثر بحالی منصوبہ تیار کر رہے ہیں، ویسے ہی منگل کو جاری کی گئی ایک نئی رپورٹ (عبوری نقصان اور ضروریات کی تشخیص – IRDNA) میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2024 تک جاری اسرائیلی بمباری اور جارحیت سے 49 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے وسیع مالی تعاون، عطیہ دہندگان کا مضبوط نیٹ ورک، مختلف مالیاتی ذرائع، اور تعمیراتی سامان کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہوگا۔
بنیادی شعبوں میں نقصانات اور لاگت
انفراسٹرکچر کی مرمت کے لیے 29.9 ارب ڈالر درکار ہوں گے، جن میں سب سے زیادہ 15.2 ارب ڈالر ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
اسرائیلی حملوں میں 292,000 سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ یا ناقابل رہائش ہو چکے ہیں، جو کل تباہی کا 53 فیصد بنتے ہیں۔
غزہ کے صحت، تعلیم، تجارت اور صنعت کے شعبوں کو پہنچنے والے نقصان کی بحالی کے لیے 19.1 ارب ڈالر اضافی درکار ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق، غزہ کے 95 فیصد اسپتال غیر فعال ہو چکے ہیں جبکہ مقامی معیشت 83 فیصد تک سکڑ چکی ہے، جس سے شہریوں کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔
غیر یقینی مستقبل
یہ نتائج اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری نازک جنگ بندی کے دوران سامنے آئے ہیں، جس پر اسرائیل پر 19 جنوری سے نافذ جنگ بندی کی بار بار خلاف ورزی کے الزامات لگ رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے عندیہ دیا ہے کہ اگر حماس یرغمالیوں کی رہائی جاری نہیں رکھتی تو اسرائیل دوبارہ فوجی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، غزہ کے انتظام اور اس کے مستقبل سے متعلق غیر یقینی صورتحال کے باعث بڑے پیمانے پر بحالی اور تعمیر نو کے کام فوری طور پر شروع نہیں کیے جا سکتے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: “بحالی کی رفتار، وسعت اور دائرہ کار ان حالات پر منحصر ہوگا۔”
جنوری میں دوبارہ صدارت سنبھالنے کے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے رہائشیوں کو بےدخل کرنے اور اس علاقے کو “مشرق وسطیٰ کا رویرا” بنانے کا متنازع منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 20 لاکھ فلسطینیوں کو مستقل بےگھر کرنا اور اردن و مصر پر دباؤ ڈالنا شامل ہے تاکہ وہ جبری طور پر بےدخل کیے گئے فلسطینیوں کو اپنے ہاں پناہ دینے پر مجبور ہوں۔ نیتن یاہو نے ٹرمپ کے منصوبے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے فلسطینیوں کی “رضاکارانہ نقل مکانی” کے لیے ایک خصوصی ادارہ بھی قائم کر دیا ہے۔
اس کے برعکس، مصر عرب ممالک کی قیادت میں غزہ کی تعمیر نو کا ایک منصوبہ پیش کر رہا ہے، جس کا مقصد غزہ کے شہریوں کو ان کے گھروں میں ہی رکھنا ہے۔ مصری وزیر خارجہ بدر عبد اللطی نے پیر کو اعلان کیا کہ قاہرہ ایک “کثیر الجہتی بحالی اور تعمیر نو کا منصوبہ” تیار کر رہا ہے جس میں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی شامل نہیں ہوگی۔ اس منصوبے کے تحت غزہ میں “محفوظ علاقے” قائم کیے جائیں گے، جہاں بےگھر فلسطینیوں کو ٹھہرایا جائے گا، جبکہ مصری اور بین الاقوامی کمپنیاں تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی کا کام کریں گی۔
رائٹرز کے مطابق، عرب اور خلیجی ممالک اس منصوبے میں 20 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ مصری صدر عبد الفتاح السیسی جمعرات کو ریاض کا دورہ کریں گے تاکہ اس منصوبے پر مزید تبادلہ خیال کیا جا سکے، جبکہ 4 مارچ کو قاہرہ میں ایک عرب سربراہی اجلاس میں اس تجویز کو حتمی شکل دیے جانے کا امکان ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے کہا کہ اسرائیل مصر کے اس منصوبے کا جائزہ لے رہا ہے، لیکن اس بات کا اعادہ کیا کہ کوئی بھی ایسا منصوبہ جس میں حماس کو غزہ میں سیاسی یا عسکری موجودگی برقرار رکھنے کی اجازت دی جائے، اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہوگا۔